اہم خبریں

Post Top Ad

جمعہ، 22 فروری، 2019

نظام ہاضمہ

نظام ہاضمہ
نظام ہاضمہ

اسلام علیکم دوستو" اُمید کرتا ہوں آپ سب خیریت سے ہونگے ،آج کی ہماری پوسٹ  نظام ہاضمہ کے بارے   میں ہے کیونکہ لوگوں کو اس کے ۔بارے میں بہت غلط فہمیاں ہوتی ہے

چند غلط فہمیاں جن کا دور کر نا بہت ضروری ہے
غذااور ہا ضمے کی خرابی میں بہت قربیی ساتھ ہے ۔جس طرح سردور ،یہ ہر قوم اور نسل کے لئے اجنبینہیں اور اس چھوٹی سی تکلیف کے بارے میں بہت بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں لوگوں کو بتائی جاتی ہیں۔اس ہی طرح ہاضمے کی خرابی کے بارے میں بہت سے لوگ غلط فہیموں کا شکار ہیں ۔نظامِ ہضم میںخرابی کے لوگو ں میں کو ئی کمی نہیں ہوتی ۔ایسے افراد تو ہر گھر میں ہوتے ہیں ۔لیکن مسلہ یہ ہے ان کی بڑی تعداد خود کو نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو مریض سمجھ کر بیٹھ جاتی ہے یا پھر مرض کے بارےمیں معلومات کم ہو نے کی وجہ سےایسا ہوتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ چند لوگ واقعی اس مرض میںمبتلا ہوتے ہیں ۔

بدہضمی کےحوالے سے جو شکایت سرفہرست ہےوہ ریاح اور گیس کی شکایت ہے۔کوئی بھی ایسا انسان نہیں جس کو اس مرض سے پریشان نہ کیا ہو۔کھانے کے بعد اکثر لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں ڈکاریں بہت آتی ہیں یا پیٹ میں گیس پیدا ہو جاتی ہر کوئی اس بات کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ایسے مریض بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیٹ میں پیدا ہونے والی گیس ان کے سر،گردن،ایڑی یا جسم کے کسی اور حصے میں پھنس گئی ہے اور انہیں تکلیف ہوتی ہے ۔لیکن اِدھر ہی بسنہیں ،اگر ان لوگوں کے جسم کے اُن حصوں کو دبایا جائے یہاں گیس پھنسی ہو تو ایسے لوگوں کو بڑیڈکاریں آنے لگ جاتی ہیں اور وہ خود کو سکون میں پاتے ہیں ۔ان لوگوں کا خیال ہے دبانے سے وہ گیسڈکاروں یا کسی اور شکل کی صور ت میں گیس خارج ہو جاتی ہے حالانکہ یہ ان کی غط فہمی ہوتی ہے ۔کیونکہ ان حصوں تک گیس کے پہنچنے کا جسم میں کوئی راستہ نہیں ہوتا یہ بس ان لوگوں کا وہم ہوتا ہے۔کھانا کھانے کے بعد جب ہاضمے والا عمل شروع ہوتا ہے تو گیس بھی ساتھ ہی بنتی ہے اور یہ گیس اگرانسان کے معدے میں بنے تو ڈکار کی شکل میں باہر نکل جاتی ہے اور اگر انسانی آنتوں میں بنے تو ریاحکوصورت میں جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔لیکن اس گیس کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ بعض دفعہ توانسان کو اس کے خارج ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو کھانا کھاتےکھاتے ہی ڈکاروں کا آنا شروع ہو جاتا ہے۔جب کہ انہوں نے کھانا بھی نوعیت اور اپنی ضرورت کےمطابق ہی کھایا ہوتا ہے اُن کا ہاضمے والا عمل اور نظام بھی درست کام کررہا ہوتا ہے،پھر وجہ کیا؟دراصل ڈکاروں کی شکایت غذا کے کھانے اور نگلنے کے غلط انداز کے باعث پیدا ہوتی ہے۔اکثر لوگکھانا جلدی جلدی میں کھاتے ہیں اسی جلدی میں وہ نوالوں کے ساتھ ہوا کی اچھی خاصی مقدار بھینگل جاتے ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگوں کا کھانا کھاتے وقت باتیں کرنے کا معمول ہوتا ہے وہ اسوقت تک کھانے کا ایک نوالا نہیں کھاتے جب تک کوئی بات نہ کر لیں۔اب تو ویسے میں ٹیبل ٹاکسکو فیشن سمجھا جاتاہےاور اسی دوران ہوا کی بڑی مقدار معدے میں پہنچ جاتی ہے ،پھر جب معدہ اپناکام شروع کرتا ہے اور غذا ادھر ادھر ہلتی ہے تو معدے میں موجود پہلے سےہوا جب باہر نکلتی ہےتویہ ڈکاروں کی شکل میں باہر نکلتی ہے۔ایسی صورت اُس وقت بھی رونما ہوتی یے جب کوئی ٹافی اورچاکلیٹ کو چوس چوس کر کھایا جاتا ہے۔ہوا کے اخراج سے معدے میں تناو کم ہو جاتا ہے اس لیےہم سکون محسوس کر تے ہیں ۔
جب کبھی ہم اپنے ہاضمے میں خرابی کو محسوس کرتے ہیں یا پیٹ بوجھل ہو جائے تو ہم فوراََ ہاضمے کی کوئیدوا استعمال کرتے ہیں ۔ان دواوں میں سوڈیم بائی کاربونیٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔معدے میںہاضم رطوبات موجود ہوتی ہیں جن میں خاصیت تیزابی ہوتی ہے۔جب سوڈیم بائی کاربونیٹ کا معدےمیں موجود تیزابی رطوبتوں ملن جُلن ہوتا ہے تو کیمیائی عمل کے نتیجے میں کار بونک ایسڈ گیس پیدا ہوتیہے جو ڈکاروں یا ریاح کی شکل میں خارج ہوتی ہے اور خارج ہونے کے بعد لوگ اپنےآپ کو بہت ہلکااور پرسکون محسوس کرتےہیں ۔لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ ہاضمے کی درستگی کے لئے جو دوا اُنہوں کے استعمال کی جس کی وجہ سے گیس خارج ہوئی دراصل وہ گیس بنی بھی اس دوا کی ہی وجہ سے ہوتی ہے۔۔اس بات کو سمجھنے کے لئے آپ ایک پیالی میں ترش پھلوں کا رس یا ادرک کا رس لیں اور اس میںسوڈیم بائی کاربونیٹ  ملا لیں۔ترش پھلوں کے رس میں موجود تیزاب اور سوڈیم بائی کاربونیٹ مل کرفوراََ بونک ایسڈگیس بنائیں گے جو جھاگ اور بلبوں کی شکل میں پیالی سے خارج ہونا شروع ہو جائےگی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دوائیں ہمیں بس ذہنی طور پر مطمئن کر دیتی ہیں اور ہم ان کے عادی بن جاتےہیں۔
ہاضمے کی خرابی کی دوسری وجہ سینے کی جلن بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے ۔جب سینے کی جلن لوگمحسوس کرتے ہیں تو اکثر لوگ اس تکلیف کو دل کی تکلیف سمجھ  کر شیدید خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔حالا نکہ سینے کی جلن کا تعلق دل کی تکلیف سے دور تک کا نہیں ہے ۔یہ تکلیف عام طور پر معدے کیہاضم رطوبات کے زیادہ مقدار میں بننے یا تیز مرچ مسالے والی غذائیں کھانے کے بعد ہو جاتی ہے۔کبھی کبھار تلی ہوئی مرغن غذا کھانے سے بھی یہ شکایت ہو جاتی ہےاور کبھی کبھار منہ کو ذائقہ بھیبدل جاتا ہے ۔لیکن منہ کے ذائقے کی تبدیلی کا انحصار صر ف ہاضمے کے معل یا معدے ہی سے نہیںہے۔منہ اور مسوڑھوں کے امراض ،ناک اور حلق اور سانس کی نالیوں کے امراض میں بھی منہ کاذائقہ بدل جاتا ہے۔بعض لوگ کھانے کے دوران پانی کا استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کہیںپانی معدے میں موجود  ہاضم رطوبتوں کو بھی اپنےاندر حل کر کے معدے سے آنتوں میں نہ لےجائےاور یو ں غذا ہضم نہ ہونے پائےیا دشوار ہو جائے۔کچھ لوگ تو یہاں تک احیتاط کرتے ہیں کہکھانا کھانے کے بعد دو دو گھنٹے تک پانی نہیں پیتےلیکن حقیقت یہ ہے کہ  جب ہم پانی پیتے تو وہ تیزیسے معدے سے گزر کر آنتوں میں چلا جاتا ہےاور وہاں سے وہ جذب ہو کر دوران خون میں شامل
ہوجاتا ہے۔اس لیے وہ اندیشہ بے بنیاد ہے ۔لیکن کھانا کھاتے وقت بار بار پانی پینے کا ایک ہی نقصانہے اور وہ یہ ہے منہ میں موجود غذا بھی معدے میں چلی جاتی ہے جو ابھی تک چبائی بھی نہیں ہوتی ۔اور اس غذا پر منہ سے موجود ہاضم رطوبتوں نے اپنا عمل نہیں کیا ہوتا ۔کھاناکھانے میں اکثر لوگوں کو  اکثر شکایت ہو تی ہے ۔وہ ہے الرجی کی شکایت اکثر افراد کو مختلف اشیاسے الرجی ہوتی ہے۔کسی کے خیال میں مچھلی اسے راس نہیں ،کسی کو دودھ راس نہیں ہوتا۔اگر ایسیکوئی شے کھانے میں آ جائے جس سے الرجی ہو تو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور بہت دور بھیہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے ۔لیکن ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کے ذہن میںیہ بات بیٹھ گئی ہوتی ہے کہ فلاں غذا انہیں نقصان پہنچائے گی اگر وہ غذا کو استعمال کر لیں تو اس کیتکلیف سے پریشان ہوجاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

home